Poet: Syed Ehsan
ختم ہوجائے وہ ڈگر ہی نہیں
اور مسلسل کوئی سفر ہی نہیں
درد جس زیست میں نہیں شامل
سو جنم لے کے بھی امر ہی نہیں
کیوں کریں ترک مئہ کشی زاہد
تیرا کہنا تو معتبر ہی نہیں
خود بنائیں ہم عدل کے معیار
قاضیِ وقت با ہنر ہی نہیں
جاں صداؤں کو دی ہے آزادی
واں کے زنداں کا بام و در ہی نہیں
پیار کے دیپ کر وہاں روشن
روشنی کا جہاں گزر ہی نہیں
لفظ در لفظ احتجاج کریں
چپ کے جملوں میں اب اثر ہی نہیں
شبِ تاریک کی میرے احسان
کون کہتا ہے کہ سحر ہی نہیں
No comments:
Post a Comment