Poet: Santosh Gomani
تیری تجلی کو ترسے کیا مانگتے مگر پوچھا تو کر
پھر ان سنسان مکانوں پر کبھی لوٹا تو کر
تیری تجھ سے گلہ یا اپنے کیئے کی سزا
مجھ کچھ نہیں معلوم مگر پوُچھا تو کر
دل کی گود میں تم نے وہم کا بیج بویا
کیا وہ چمن بنے گا؟ یہ کبھی سوچا تو کر
محبتیں کبھی اتنا میراث نہیں لیتی
گر تجھے نہیں خبر تو کہیں سے پتہ تو کر
تیری بندگی بھی بس دل کا بہلاؤ رہ گئی
پوُج کے کسی کو تو اپنا خدا تو کر
عاشقی کے سراغ کیوں نہیں ملیں گے
اک بار اپنی اونچی رِدا تو کر
دیکھو اجڑتے ہیں ہم کس طرح سنتوشؔ
کبھی آکے یاد کو دل سے جدا تو کر
No comments:
Post a Comment