Poet: Santosh Kumar Gomani
اس سحر کی گزر تک ہوائیں الگ ہو جاتی ہیں
درد دل میں رکھیں تو پناہیں الگ ہو جاتی ہیں
کیوں ڈرتے ہو کانٹوں بھری زندگی سے
یوں پاؤں بچانے تک راہیں الگ ہو جاتی ہیں
اک سپنا کروٹوں کو خوب سہارا دیتا ہے
مگر آنکھ کھولنے تک بانہیں الگ ہو جاتی ہیں
قتل تو نگاہ بھی کرلیتی ہے تلوار کی طرح لیکن
دونوں جرموں کی سزائیں الگ ہو جاتی ہیں
کبھی افضل نظاروں کو اپنے حریص نہ رکھو
عکس کو تکنے تک نگاہیں الگ ہو جاتی ہیں
زمانے کے مزاج نے گھُٹ کر جینا سکھا دیا
اپنا درد چلانے سے آہیں الگ ہو جاتی ہیں
عمر بھر انسان اوروں کی نفس کشی رہا سنتوش
خود کو سمجھنے تک سانسیں الگ ہو جاتی ہیں
No comments:
Post a Comment