Poet: Gul Ghani Afridi
دن کی جھلک ذرا سی تھی پھر رات آگئی
بدلے میں اس جھلک کے با ثبات آگئی
آنکھیں پھر اختیار سے باہر نکل گئیں
باتوں میں زیر بحث تیری ذات آگئی
محفل نے روشنی کے مزے خوب لے لئے
ہم نے دئے جلائے تو برسات آگئی
ملکہ تھا ہم کو وعظ میں ہر بات پہ لیکن
خاموش رہ گئے جو تیری بات آگئی
خوشیوں کے ڈھیر میں جو ہاتھ ڈال کے دیکھا
تو ہاتھ اپنی دکھ بھری حیات آگئی
دو پل کی ملاقات کیا اس سے ہوئی غنی
لگتا ہے بس میں پوری کائنات آگئی
No comments:
Post a Comment