Poet: Rasheed Kamil
بیداریوں میں خواب دکھاتا رہا ہے وہ
الفاط کے گلاب کھلاتا رہا ہے وہ
دن کیا یہاں تو رات کو دم بھر لگی نہ آنکھ
اک آسرے پہ برسوں جگاتا رہا ہے وہ
آ کر گرا تو میرا بدن پاش پاش تھا
کتنی بلندیوں پہ اڑاتا رہا ہے وہ
کالے خیال سرخ مضامین میں ڈھال کر
ّعنوان روشنی کا سجاتا رہا ہے وہ
مفہوم سامنے ہے کتاب سیاہ کا
پڑھتا رہا ہوں میں جو پڑھاتا رہا ہے وہ
اس فکر اس خیال کو کیا نام دوں رشید
دوزخ کو بھی بہشت بتاتا رہا ہے وہ
No comments:
Post a Comment