Poet: wasiq qureshi
سحر کی جانب چلے یا رات کی جانب چلے
وقت کا ہر تیر میری ذات کی جانب چلے
زندگی میری کہ جیسے کرب کا کوئی سفر
جب قدم اٹھے فقط آفات کی جانب چلے
راہ میں کتنے مسائل کا پڑاؤ آگیا
سوچ کیسے پیار کے باغات کی جانب چلے
ذہن و دل میں بڑھ رہی ہے بے سکونی کی گھٹن
چین کی باد صبا جذبات کی جانب چلے
بزدلی کی یہ علامت ہے کہ غربت کا اثر
لوگ جینا چھرڑ کے اموات کی جانب چلے
گفتگو کے بہتے پانی میں روانی آگئی
بولنے والے جو تیری ذات کی جانب چلے
دوستوں نے پھر میرے دکھ کا مداوا کر دیا
حوصلے پھر تلخی حالات کی جانب چلے
میرے حصے میں بھی واثق جیت کیسے آ گئی
شور تو اٹھا تھا لیجے مات کی جانب چلے
No comments:
Post a Comment