Poet: Usman Tarar
منزل کے کھوج میں اکثر راہیں بدلتی رہیں
بھٹکے ہوئے مسافروں کی نوائیں بدلتی رہیں
رشتے کے باوجود مجھے لا تعلق ٹھرایا گیا
وقت کے ساتھ ساتھ میری سزائیں بدلتی رہیں
طلب کے ساتھ وفا کا مفہوم بدل دیا گیا
اس دور میں محبت کی اصطلاحیں بدلتی رہیں
کبھی پھولوں سے سج گئے کبھی پتے بھی چھٹ گئے
موسم کے ساتھ پیڑوں کی ردائیں بدلتی رہیں
عمر کے ساتھ ساتھ سوچ بھی پختہ ہوتی گئی
عثمان فیصلے بدلتے رہے، انائیں بدلتی رہیں
ہر قدم پہ مجھ کو مشکلات کا سامنا رہا
مجبوریوں کے تحت میری دعائیں بدلتی رہیں
No comments:
Post a Comment