Poet: Shabeeb Hashmi
ہوئی دروازے پے دستک کوئی آیا تھا
نکل کے دیکھا تو وہاں ایک سایہ تھا
جنہیں سمیٹا تھا اپنی بند پلکوں میں
کھلی جب آنکھ وہ اپنا نہیں پرایا تھا
وہی جنوں وہی وحشت وہی عاشقی کا موسم
سکوں کی خاطر ہم نے بھی دل جلایا تھا
بھٹکتی روحیں تھیں اور تھیں فراق کی راتیں
سلگتے انگاروں پے توں نے خوں بہایا تھا
تڑپتی سانسیں بھی کرتی ہیں منتشر روح کو
وہ لمحے خواب ہوئے جن میں سکون پایا تھا
ہوئے ہیں راکھ تیرے کوچے کے اڑتے پتے بھی
بھڑکتی آگ میں ہم نے بھی زخم کھایا تھا
No comments:
Post a Comment