Poet: Santosh Gomani
تیرے بچھڑ جانے کے بعد کوئی احوال بھی ملتا
تو اس حال غنیمت کو کوئی حال بھی ملتا
میں اپنے سانس تک کوئی آس بھی رکھوں
کہ میری امید کو کہیں احتساب بھی ملتا
اُن منزلوں کا بھروسہ بھی یکساں نہ رہا
نہیں تو راستہ کہیں جاکر مُحال بھی ملتا
تیری رخی کو زمانے نے ضبط کیا بھی کیسے
مُجھے چہرہ اس جہاں میں کوئی ملال بھی ملتا
کہیں چمن میں چاہتیں بکھری بھی ہوتی تو
اِن پھولوں کی رنگت میں رَسال بھی ملتا
تو اپنے ہی مزاج سے گذر گیا سنتوشؔ
ورنہ میری جِبِلَت میں تیرا مثال بھی ملتا
No comments:
Post a Comment