Poet: Santosh Gomani
دھوپ کے تاؤ سے سحر کو جانا
تمہیں کیسا لگا تھا وہ بہر کو جانا
نگری نگری دھواں اٹھتے رہے
اب کہ آگ لگی ہے نہ شہر کو جانا
عالم کی صدا پہلے پہنچی شاید
مجھے تقدیر نے کہا ذرا ٹھہر کے جانا
تعظیم کی غالبی اب بھی کہتی ہے کہ
ہر روز بندگی لیئے بت گھر کو جانا؟
ان اشکوں سے ارضی آباد کروں گا
پھر کیوں نہ پڑے گا بنجر کو جانا
تسکین تک بھی نہیں مل سکا
ظالم کو راس آگیا مؤثر کو جانا
یوں شب ڈھلتی ہے تیری یاد لیئے
فکر سے لگتا ہے پھر عمر کو جانا
No comments:
Post a Comment