Poet: Shabeeb Hashmi
آغاز عاشقی نے مراسم سیکھا دئیے
عہد وفا نے سارے شکوے مٹا دئیے
کرشمہ ہے مقدر میں ملے تجھ سے نصیب
سوز و زیاں کے سارے لمحے بھلا دئیے
ضبط گریہ جو کرتا تھا رگ رگ میں سفر
اشکوں کے سارے سلسلے ہم نے بھلا دئیے
شکوہ فراق اب کیوں کر بنے گلہ
بچھڑے ہوئے دوست لم نے ملا دئیے
لب بستہ ہے الجھن میں گرفتار ہے ساقی
زہر میں ڈبو کے جام سب کو پلا دئیے
اب انسے سلسلہ ہے ناں کوئی رابطہ
قاصد کے لائے خط سارے جلا دئیے
No comments:
Post a Comment