Poet: Ahmad Faraz
ہو کوئی طرئہ پیچاک پہن کر نکلا
ایک میں پیرہن خاک پہن کر نکلا
اور پھر سب نے یہ دیکھا کہ اسی مقتل سے
میرا قاتل میری پوشاک پہن کر نکلا
ایک بندہ تھا کہ اوڑھے تھا خدائی ساری
اک ستارہ تھا کہ افلاک پہن کر نکلا
ایسی نفرت تھی کی اس شہر کو جب آگ لگی
ہر بگولہ خس و خاشاک پہن کر نکلا
ترکش و دام عبث لے کے چلا ہے صیاد
جو بھی نخچیر ہے فتراک پہن کر نکلا
اس کے قامت سے اسے جان کئے لوگ فراز
جو لبادہ بھی وہ چالاک پہن کر نکلا
No comments:
Post a Comment