یوں پتھر نہ دِکھلاؤ ہم کانچ کے دل والوں کو
ٹوٹ کے گر بِکھرے تو پھیلا دیں گے زخموں کو
کس اُمید پہ رکھوں میں نئے رِشتوں کی اساس
ستم ظریفی کہ رُلا دیتے ہیں اپنے ہی اپنوں کو
مجھ سے نہیں دیکھی جاتی اپنوں کی مسیحائی
اے خُدا چھین لے مجھ سے توُ میری سانسوں کو
محبت تو ہمیشہ اِیثار و وفا کا درس دیتی ہے
کوئی تو ہو جو سمجھائے اِن عقل کے اندھوں کو
تم ہمراہ تھے تو کانٹوں پہ بھی چل دیتے تھے
اب کیسے تنہا کاٹیں گے ہجر کی کالی راتوں کو
تیرا یوں بزمِ یاراں میں نظریں جُھکا کے ملنا
ہم تو اب بھی نہیں سمجھے قاتل تیری اداؤں کو
اِس بے لوث محبت میں ہم لُٹ تو چُکے ہیں
اب اور کیا تم تڑپاؤ گے ہم درد کے ماروں کو
جہاں خوشبو کی اُمید دیئے ہر گُل فریب کرے
جی کرتا ہے آگ لگا دوں اِن کاغذ کے باغیچوں کو
میں تو دیوانہ ہوں، یونہی بولنے کی عادت ہے
دل پہ نہ زرا بھی لیجیے گا آپ میری اِن باتوں کو
کیوں حیرت میں پڑے ہو غرض کے بندھن دیکھ کر
تم نہ سمجھو گے رضا جی اِس دور کے تقاضوں کو
No comments:
Post a Comment