Poet: Usman Tarar
پلٹا جو مسافت سے تو بے گھر ہو چکا تھا
میں اپنے ہی شہر میں دربدر ہو چکا تھا
اک دم سنبھلنا میرے بس میں نہیں تھا
معاملہ اِدھر سے اُدھر ہو چکا تھا
دوست آئے تھے ساحل پہ بچانے مجھکو
مگر پانی میرے سر سے اوپر ہو چکا تھا
اک شخص کے آنسو میری پیاس کیا بجھاتے
میرے اندر بپا اک حشر ہو چکا تھا
چارہ گر بھی اپنی بے بسی پہ رویا بہت
میری رگ رگ میں زہر کا اثر ہو چکا تھا
عثمان میرا خون میرا اپنا ہی قبیلہ کرتا
یہ ہونا نہیں چاہیے تھا مگر ہو چکا تھا
No comments:
Post a Comment