میرے چھوٹے سے گھر کو کس کی نظر اے خدا لگ گئی
کیسی کیسی دعاؤں کے ہوتے ہوئے بددعا لگ گئی
ایک بازو بریدہ شکستہ بدن قوم کے باب میں
زندگی کا یقین کس کو تھا بس یہ کہیے دوا لگ گئی
جھوٹ کے شہر میں آئینہ کیا لگا، سنگ اٹھائے ہوئے
آئینہ ساز کی کھوج میں جیسے خلق خدا لگ گئی
جنگلوں کے سفر میں آسیب سے بچ گئی تھی، مگر
شہر والوں میں آتے ہی پیچھے یہ کیسی بلا لگ گئی
نیم تاریک تنہائی میں سرخ پھولوں کا بن کھل اٹھا
ہجر کی زرد دیوار پر تیری تصویر کیا لگ گئی
وہ جو پہلے گئے تھے ہمیں ان کی فرق تہی کچھ کم نہ تھی
جان کیا تجھ کو بھی شہر نامہرباں کی ہوا لگ گئی
دو قدم چل کے ہی چھاؤں کی آرزو سر اٹھانے لگی
میرے دل کو بھی شاید تیرے حوصلوں کی ادا لگ گئی
میز سے جانے والوں کی تصویر کب ہٹ سکی تھی مگر
درد بھی جب تھما ، آنکھ بھی ذرا لگ گئی
No comments:
Post a Comment