Poet: Shabeeb Hashmi
وحشت کا اک نگر ہوا آباد دوستوں
پھر وقت کے سفر میں ہوا برباد دوستوں
وہ آئے اور آ کر واپس چلے گئے
ہم انتظار کی شدت میں رہے بیدار دوستوں
پوچھی ہیں اس نے مجھ سے وفاؤں کی قیمتیں
مانگا ہے کیسا اس نے یہ حساب دوستوں
کتنے ہی صفحے ہم نے اسکے لئے لکھے
ذرا کھول کے دل کے دیکھو کتاب دوستوں
ساری دیواریں چاہتوں کی پانی میں بہہ گئیں
ابلا ہے آنسوؤں کا اک سیلاب دوستوں
کر کے سوال ان سے میں منتظر ہی رہا
اور خاموشی ہی بنی ان کا جواب دوستوں
No comments:
Post a Comment