Poet: Musab Mehmood Abbasi
دکھڑا وہ بے تکان سناتا چلا گیا
ہم کو بھی اعتبار سا آتا چلا گیا
تھی زندگی فریب نظر جانتا تھا میں
آنکھوں میں پھر بھی خواب سجاتا چلا گیا
ہر گام پر مجھے نیا اک راہبر ملا
ہر گام میری راہ بڑھاتا چلا گیا
شرمندگی کی آگ میں جلتا تو ہوگا وہ
یہ اطمینان دل کو دلاتا چلا گیا
ماّضی کے دھندلکوں میں کوئی عکس کھو گیا
یا دل کو ہی قرار سا آتا چلا گیا
شکوہ نہ تھا گلا بھی نہیں اور کچھ تھا جو
یک دم زبان یار پہ آتا چلا گیا
ہم نے کہا نہیں وہ مگر جان ہی گیا
شاید میں دل کو آنکھ میں لاتا چلا گیا
برسوں سے ایک نظم جو کاغذ پہ قید تھی
بے اختیار اس کو سناتا چلا گیا
No comments:
Post a Comment