Poet: Santosh Gomani
تیرے یادوں کے پھول بھی سنبھال رکھیں گے
گذرو تو پاؤں کی دھول بھی سنبھال رکھیں گے
جو گنوادیئے لمحے وہ خفگی کی خطا تھی
ابکہ آویزاں ہر بھول بھی سنبھال رکھیں گے
وہ آکے غم تشویش مکر نہ بیٹھے کہیں
ورنہ زندگی کے اصول بھی سنبھال رکھیں گے
میں سارے جہان کی اجابت نہیں کر سکتا
تجھے گر ہوگیا قبول تو سنبھال رکھیں گے
ہم خیالی تو قدرتی امر ہے پھر بھی
عقل، عاقل، اور معقول سنبھال رکھیں گے
جو دے گیا سنتوشؔ اس کی نرُخ نہیں
مگر اپنا تو ہر موُل سنبھال رکھیں گے
No comments:
Post a Comment