Poet: Abdul Rouf
کیا رہے قائم یہاں اب اختیار زندگی
موت کی ہو جائے جب طلبگار زندگی
گھٹ گھٹ کے ہے جینا مرنا ہے گمنام
یہ ہے میرے شہر کا معیار زندگی
گھر میں بھوک اور باہر بارود کا خوف
ختم ہونے کو ہیں سبھی آثار زندگی
لہو سے تول کے پایا تھا جسے ہم نے
مفلوج ہوا ہے وہیں کاروبار زندگی
عصمتوں کی حفاظت٬ نہ گرم لہوکا خیال
شرمندہ ہوئی ہے یہاں ہر بار زندگی
جو نقش پاء محمد سے نگاہ ہٹالی ہم نے
بھٹکتی ہے کوچہ کفر میں شرمسار زندگی
توشہ آخرت باندھ٬ اس پر تکیہ نہ کر
یہ تو پل میں ٹوٹ جائیگا٬ کیا اعتبار زندگی
No comments:
Post a Comment