Poet: Mobeen
آوارگی سے جب کوئی تھک جائے
اسے چاہے کہ اپنے گھر جائے
اتنے سارے گھروں کو بہا لینے کے بعد
دریا کو چاہے کہ اب اتر جائے
تاروں بھرا آسماں بھی گردش میں ہے
گردش ایام سے گھبرا کر کوئی کدھر جائے
لق و دق ہے یہ صحرا زندگی کا
تمازت دھوپ میں کوئی کیسے گزر جائے
اس کے ہاتھوں پر حنا دیکھ کر خیال آیا
رنگ وہی ہے جو دل میں اتر جائے
رات ہے ہوا ہے چاندنی ہے
اس زلف کی خوشبو فضا میں بکھر جائے
No comments:
Post a Comment