Poet: Saeed Ahmed Gaohar
یہ عکس ہے ہمارا جسامت کہاں گئی
یہ شکل آدمی کی سلامت کہاں گئی
فریاد کر رہا ہوں میں جس کے سامنے
اس سایہ قبر کی کرامت کہاں گئی
اس شہر کے ہجوم میں رہبر بھی تھا میرا
اب مقتدی بنےتو امامت کہاں گئی
دریا اتر چکا ہے سمندر کی موج میں
پانی کی باقی ماندہ ندامت کہاں گئی
سنتے ہیں اپنے رکھتے ہیں چھاؤں میں مار کے
میں دھوپ میں پڑا ہوں کہاوت کہاں گئی
طوفاں سے بچ کے میرا سفینہ الٹ گیا
ساحل سے پوچھ بحر امانت کہاں گئی
دھنستا ہی جارہا ہوں محبت کے ساتھ جب
گوہر میں کیا کہوں کہ قدامت کہاں گئی
No comments:
Post a Comment