Poet: Mazhar Iqbal Samar
عشق ناسور ہے تو اس سے بغاوت کر لے
حوصلہ ہے پھر دل سے بھی عداوت کر لے
کیا کہوں تم سے میں شب بیداری کا سبب
اے میرے دوست تو اک بار محبت کر لے
آنکھ کھلے گی اور ٹوٹ جائے گا پتھر کا بھرم
تو اے نادان کسی اور کی عبادت کر لے
یہ جوانی جو تیرے نام سے بدنام رہی
اسے اپنانے کی کسی روز جرات کر لے
دے رہا ہے اجالے میری آنکھوں کے عوض
دل کی یہ ضد ہے پھر بھی یہ تجارت کر لے
مار دے گا تمہیں دوستی کا بھرم اک دن
مظہر ابھی سے بچنے کی کوئی صورت کر لے
No comments:
Post a Comment