Poet: Shabeeb Hashmi
دکھ شمار کریں تو سانس اکھڑ جاتی ہے
خوابوں کو راکھ کریں تو بستی اجڑ جاتی ہے
وہ جو احساس تھا ہتھیلی پے سجا رکھا ہے
کٹ جائیں ہاتھ تو قسمت بھی بدل جاتی ہے
ایسی وحشت ہے کہ جسکا کوئی مداوا ہی نہں
معجزے کی آس پے ہر شام گزر جاتی ہے
اجاڑے شہر اور گلیوں میں کیا ماتم برپا
کیا ہے اب انکی سزا منصف پے نظر جاتی ہے
جلتے ارمانوں کو دیواروں پے سجا رکھا ہے
دھوپ کی شدت سے میری جان بھی جل جاتی ہے
ناں جلاؤ شمع کو اور پھول بھی مت لاؤ
روشنی آنکھ میں آے تو پگھل جاتی ہے
مانگ میں راکھ ہے تو آنچل کو لگا چاند گرہن
رات کی سیاھی اسے اور بھی ویراں کر جاتی ہے
No comments:
Post a Comment