Poet: Rafiq Sandeelvi
اندھیرے کے تعاقب میں کئی کرنیں لگا دے گا
وہ اندھا داؤ پر ابکے میری آنکھیں لگا دے گا
مسلسل اجنبی چاپیں اگر گلیوں میں اتریں گی
وہ گھر کی کھڑکیوں پہ اور بھی میخیں لگا دے گا
فصیل سنگ کی تعمیر پر جتنا بھی پہرا ہو
کسی کونے میں کوئی کانچ کی اینٹیں لگا دے گا
میں اس زرخیز موسم میں بھی خالی ہاتھ لوٹا تو
وہ کھیتوں میں قلم کر کے میری با نہیں لگا دے گا
وہ پھر کہ دے گا سورج کو سوا نیزے پہ آنے کو
کٹے پیڑوں پہ پہلے موم کی بیلیں لگا دے
No comments:
Post a Comment