Poet: Santosh Gomani
پھولوں کی تمنا کی اور کانٹوں سے جا ٹکرا
گلشن کی روایت تھی میں تو بے خبر اجڑا
بڑی سانس لیکر جو رنج پالیا ہم نے
درد کا یہی لقمہ پھر حلق سے اترا
میری ہنگاموں کو پھر زباں بھی کیسے ملتی
آنکھوں میں سمندر رہا اور گرا بھی نہ قطرہ
ان کی بات ان کو بھی نہ بتا سکے پھر
یوں چبھ رہا ہے دامن میں اب وہی فقرہ
اک ہی خیال کو تو سرشام اجاڑا گیا
پھر وہی خواب میری پلک سے نہ گذرا
میری طرز عبادت دیکھو کیسے رنگ لائی
جس پتھر کو پوجا وہ پتھر ہی نکلا
No comments:
Post a Comment