Poet: Santosh Gomani
مجھے عاشقی اشکوں کے بھرم سے ملی تھی
پھر شاعری دکھ کے قلم سے لکھی تھی
میرے بلانے پر بھی فضائیں کہاں لوٹیں
ہر موسم کو تو بے رخی ان سے ملی تھی
رنجشوں سے مرہم نہیں ہوتا اب تک
درزوں کو بھی آوارگی غم سے ملی تھی
مجھے موت بخشنے والے تم کہاں جاؤ گے
ہم کو تو زندگی تیرے دم سے ملی تھی
تنہائی کی بانہوں نے جب گھیر لیا مجھے
تب کتنی خاموشی اپنے کرم کو ملی تھی
یاد کی شب میں سنتوش سلگتے سوچا کہ
دیوانوں کو آسودگی بہت کم ملی تھی
No comments:
Post a Comment