Poet: Mobeen
سفاک قاتل پھرتے ہیں بازاروں میں
اپنے دروازوں کو مقفل کر لو
بچے جو کھیل رہے ہیں
باہر گلیوں میں
انہیں گھروں کے اندر کرلو
مگر اک قاتل
بند دروازوں سے بھی
آ جاتا ہے
انسانیت کی بے بسی کا
مذاق اڑاتا ہے
روک نہیں سکتے اس کو
ناتواں ہاتھ
غربت اور بھوک کا
جب راج چھاتا ہے
اپنے چولہے کی آگ بجھا دو
خالی پانی کو ابلنے نہ دو
بھوک سے بلکتے بچوں کی
حسرت بھری آنکھوں پر
قدرت کو ترس آتا ہے
No comments:
Post a Comment