Poet: Arif Shafiq
گردشیں لوٹ گئیں میری بلائیں لے کر
گھر سے جب نکلا تھا میں ماں کی دعائیں لے کر
زندگی ڈوب گئی موت کے سناٹے میں
باپ لوٹا نہیں بچے کی دوائیں لے کر
لوگ سڑکوں پہ نکل آئے فسادات کے بعد
اپنے ہی کاندھوں پہ خود اپنی چتائیں لے کر
میری بیماری کا ہو پائے بھلا کیسے علاج
دوست احباب فقط پھول ہی آئیں لے کر
بس اسی خوف سے مچلیں نہ کھلونوں کے لئے
کب تلک بچوں کو بازار نہ جائیں لے کر
ہر سو پھیلی تھی گھٹن شہر سخن میں عارف
جب میں آیا تھا یہاں تازہ ہوائیں لے کر
No comments:
Post a Comment