Poet: Rizwan Zafar Razi
ہوا نہیں ہے جی بھر کے دیدار ابھی تک
اترا نہیں ہے کل کا خمار ابھی تک
رکتا بھی نہیں ٹھیک سے دھڑکتا بھی نہیں ہے
سنبھلا نہیں ہے یہ دلِ بیمار ابھی تک
پُر خطر ہے راستہ اور ہیں پیچ و خم
ملے نہیں ہیں منزل کے آثار ابھی تک
ُُبیوفا بھی، ستمگر بھی، جفا پیشہ بھی
دیتا ہے مجھے الزام میرا دلدار ابھی تک
پیتے تو ہیں مگر نینا سے یار کے
دیکھے ہیں تو نے ایسے کیا مے خوار ابھی تک
نایاب کیا ہے جس نے وفا میں ہمیں رضی
اس بیوفا پہ ہے ہمیں اعتبار ابھی تک
No comments:
Post a Comment