Poet: Nazuk Dil
ایک پل چین سے سویا بھی نہیں جا سکتا
کیا کریں کہ ٹوٹ کے رویا بھی جا سکتا
خواب اشکوں کی طرح آنکھ سے جھڑتے بھی نہیں
بوجھ ایسا ہے کہ ڈھویا بھی نہیں جا سکتا
عشق وہ داغ ہے کہ لگتا نہیں ہر دامن پر
اور لگ جائے تو دھویا بھی نہیں جا سکتا
کیا قیامت ہے کہ ساحل بھی مقدر میں نہیں
اور سفینے کو ڈبویا بھی نہیں جا سکتا
آنکھ تر تھی تو سمندر میرے آغوش میں تھا
اب کے دامن کو بھگویا بھی نہیں جا سکتا
No comments:
Post a Comment