Poet: Santosh Gomani
سب کچھ سامنے اور خاموش زبانیں
بے سخن ہیں یہ فراموش زبانیں
خودنمائی تو خوب نمایاں ہوئی ابکہ
اپنے رتبے پہ ہیں افسوس زبانیں
میرے آس پاس دیکھو کیا کیا خزانہ
بے ہمت لوگ اور بیہوش زبانیں
بہت بھٹکی ہیں اپنے اختیار پہ آج تک
اب بھی لگتی ہیں خانہ بدوش زبانیں
یوں تو سنجیدگی کا ہے ردم ہی اپنا
پھر کیوں ہیں اتنی یہ ٹھوس زبانیں
کبھی کردار پر تو کبھی قسمت کے آگے
ہردم ہر دفعہ رہی یہ دوش زبانیں
No comments:
Post a Comment