Poet: Om Krishan Rahat
ٹھوکر جہاں لگی وہ سنبھلنے کا تھا مقام
ہم اس کو اتفاق ہی گردانتے رہے
تو ميری التجا پہ خفا اس قدر نہ ہو
تيری جبيں سے اٹھ نہ سکے گا شکن کو بوجھ
کيوں شفق کو شفق نہ سمجھا جائے
کيوں تمناؤں کا لہو کہيے
اک پردہ حائل نے بچھا رکھا ہے اس کو
عرياں ہوا گر حسن تو آئينہ پگھل جائے گا
کہتے ہيں وہ گوہر ناياب عنقا ہوگيا
سنتےہيں اشک ندامات بھی تھا انسانوں کے پاس
تمہاري ياد کا يہ سلسلہ معاذ اللہ
ذرا سا فاصلہ اشکوں کے درمياں نہ ملا
کچھ تو انساں نے پسارا ہے بہت پائے طلب
اور کچھ سائے سمٹتے گئے ديواروں کے
تيرے اصلی روپ سے سب گھبرائيں گے
اس نگری ميں راحت بھيس بدل کر چل
ميراث ہی اس کی ہو يہ خانہ دل جيسے
خواہش نے میرے دل ميں يوں پاؤں پسارے ہيں
No comments:
Post a Comment