زندگی دھوپ چھاؤں جیسی ہے جسم و جاں پر عذاب لکھتی ہے
آس کی چھت پہ آرزوئے وصالخود فریبی کے جال بنتی ہے
بے ثمر خواہشوں کے پیڑ تلےایک لڑکی اداس بیٹھی ہے
دن بدن کو تکان دیتا ہےرات آنکھوں کو خواب دیتی ہے
No comments:
Post a Comment